Religious Scholar Hafiz Sabir Ali Died – Lakhon Log Offers Janaza in Bhopal Wala Sambrial District Sialkot
He remained teacher in Government High School Bhopal Wala for 38 years
Sambrial District Sialkot (Tuesday, April 5, 2016) – Famous religious scholar and Govt school teachers Hafiz Sabir Ali Sabir died in Bhopal wala Masjid during Namaz e Asr on April 3, 2016 (Sunday). Yesterday his Namaz e Janaza was offered in Bhopal Wala Tehsil Sambrial District Sialkot. Almost 1.5 Lac (150 Thousands) of persons offerd his Janaza. His son lead the Janaza prayer. During janaza clouds make the formation of Kalma e Tayyaba. Thousands of Peoples saves this view in their Cameras.
پروفیسر حافظ صابر علی صاحب کے جانشین بیٹے فاروق صابر کا مختصر بیان
Janaza Video
اِنََّا لِلّٰہِ وٓاِنََّااِلَیٌُہِ رَاجِعُوٌنٓ
پروفیسرحافظ صابر صاحب رحمتہ اللہ بہت ھی عظیم عالم دین تھے۔ جو عالم باعمل تھے۔ مجھے یاد ھے میرے بچپن کا ایک واقعہ جب گوجرانوالا میں ھمارےُپڑوس میں فارس اسٹینڈرڈ اسکول جو میرا پرائمری سکول بھی تھا کے بزرگ وفات پا گئے تھے جو بہت عمر رسیدہ تھے ۔ ان کا نمازِ جنازہ ادا کرنےعلاقے کے سینکڑوں افراد گئے تو ھمارے محلے کے امام مسجد علامہ اسلم چشتی صاحب جو کہ خود بھی ایک مشہور علامہ ھیں نے نمازہُجنازہ ادا کرنے کے بعد اپنی جگہ بظاہر ایک عام سے شخص کے لے چھوڑ دی۔ جناز گاہ میں شدید گرمی تھی اور سب لوگ حیران تھے کے علامہ صاحب نے یہ کس کو اجازت دے دی ھے۔ وہ شخص ایک سادہ سے دیہاتی مزدوروں والے حُلِیے میں سب کے سامنے کھڑا ھو گیا۔ کچھ دیر ھم سب یہ سمجھتے رھے کے یہ شخص اپنی کسی ضرورت یا حاجت کے لیے اپیل کرنے والا ھے اور کوئی اُن کی طرف زیادہ متوجہ نہیں تھا اور سب آپس میں باتوں میں مشغول ھو گئے جیسے جنازے کے بعد لوگ آپس میں باتوں میں مشغول ھو جاتے ھیں مگر جب جب وہ شخص اپنےعلم و حکمت انمول خزانے کھولتا گیا ساتھ ساتھ شھر کی عوام کی آنکھیں بھی کھولتا گیا اور دو تین منٹ تک پورے حال میں ایسا سناٹا چھا گیا جیسے کوئی موجود ھی نہیں ھے۔ صرف ایک ھی آواز اس دیھاتی سے شخص کی سب کے کانوں میں گونج رھی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ھے وہ تقویٰ اور تقدیر اور موت کے بعد زندہ ھونے پہ بات کر رھے تھے۔ اور آخر اس کے ختم کرتے کرتے بیشمار لوگوں کے دل بدل چکے تھے تقریباً ھر آنکھ خوفِ خدا اشکبار تھی اور سب لوگ ایک بھترین عالم دین کی صحبت سے علم کے سینکڑوں موتی اپنے اپنے دامن میں سمیٹ چکے تھے۔ ان کا خطاب ختم ھوتے ھی ھر ایک کی زبان پے ایک ھی سوال تھا۔ یہ کون ھیں؟ یہ کہاں سے آے ھیں ؟ کیا یہ مولانا صاحب ھیں؟ کیا مولانا صاحب بھی اتنے سادہ لوح ھوتے ھیں ؟ وغیرہ وغیرہ – پھر معلوم ھوا یہ سیالکوٹ کے ایک کالج کے پروفیسر صاحب ھیں جن کا نام پروفیسر حافظ صابر ھے۔اور جن بزرگ کا جنازہ تھا وہ پروفیسر خافظُ صابر صاحب کی مسجد بھوپال والا میں بڑی عقیدت کے ساتھ جایا کرتےُتھے۔ حافظ صاحب سے ھزاروں لوگ علم کی، عمل کی اور ایمان کی دولت سے فیض یاب ھویے ھیں۔ اسلام کے لیےان کی خدمات قابل ستائش ھیں۔ حافظ صاحب ھمیشہ ھی سرد دین کی بات کرتے تھے معاملات کی بات کرتے تھے اور کبھی فرقہءِواریت یا گُروہ بندی کی بات نہیں کرتے تھے۔ اللہ حافظ صاحب جیسے عظیم علماء کے علم و تدریس سے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مستفید ھونے کی توفیق آتا فرماے۔ یا اللہ تو مرحوم کی مغفرت فرما اور ان کے درجات اور بلند فرما، ان کی قبر کو منور فرما، ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما اور ان کے جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرما۔ آمین ثم آمین








